google.com, pub-4756575377874832, DIRECT, f08c47fec0942fa0 No data received from your website yet. Natique ki Zaban
ماں کی اطاعت پر حقیقت پر مبنی ایک مضمون  

ایک جج صاحب اپنی بیوی کو
 طلاق کیوں دے رہے ہیں، ؟؟؟؟ 

رونگٹے کھڑے کر دینے والا
سچا واقعہ۔۔ 
کل رات ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے زندگی کی کئی پہلوؤں کو چھو لیا۔
قریب شام کے7بجےھونگے ،موبائل کی گھنٹی بجی۔ اٹھایا تو ادھر سے رونے کی آواز ۔۔۔ 
میں نے چپ کرایا اور پوچھا کہ بھابی جی آخر ہوا کیا ؟؟
ادھر سے آواز آئی آپ کہاں ہیں؟ اور کتنی دیر میں آ سکتے ہیں؟
میں نے کہا آپ پریشانی بتایے اور بھائی صاحب کہاں ہیں؟ ۔ اور ماں کدھر ہیں۔آخر ہوا کیا ہے؟
لیکن ادھر سے صرف ایک ہی رٹ کے آپ فوراً آجاءیے۔ 
میں اسے مطمئن کرتے ہوئے کہا کہ ایک گھنٹہ لگے گا پہنچنے میں۔ جیسے تیسے گھبراہٹ میں پہونچا۔۔ 
دیکھا کہ بھائی صاحب، (جو یمارے جج دوست ہیں ) سامنے بیٹھے ہوے ہیں۔ 
بھابی جی رونا چیخنا کر رہی ہیں؛ ١٢ سال کا بیٹا بھی پریشان ہے اور ٩ سال کی بیٹی بھی کچھ کہ نہیں پا رہی ہے۔ 
میں نے بھای صاحب سے پوچھاکہ" آخر کیا بات ہے"؟ 
بھائی صاحب  کچھ جواب نہیں دے رہے تھے۔۔
پھر بھابی جی نے کہا؛ یہ دیکھیے طلاق کے کاغذات۔
 کورٹ سے تیار کرا کر لائے ہیں۔  مجھے طلاق دینا، چاہتے ہیں َ۔ 
میں نے پوچھا " یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟؟؟  اتنی اچھی فیملی ہے ؛ دو بچے ہیں۔ سب کچھ سیٹلڈ ھے۔  پہلی نظر میں مجھے لگا کے یہ مذاق ہے۔ 
لیکن میں نے بچوں سے  پوچھا دادی کدھر ھے ۔ تو بچوں نے بتایا ؛  پاپا  انہیں ٣ دن پہلے نوئیڈا کے "اولڈ ایج ھوم" میں شفٹ کر آئے ہیں۔
میں نے نوکر سے کہا؛ مجھے اور بھائی صاحب کو چاے پلاو؛ 
کچھ دیر میں چائے آئی  َ بھائی صاحب کو میں نے بہت کوشش کی چائے پلانے کی۔ مگر انہوں نے نہیں پیا۔ اور کچھ ہی دیر میں وہ معصوم بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔  اور بولے میں نے ٣ دنوں سے کچھ بھی نہیں کھایا ہے۔ میں اپنی 61سال کی ماں کو کچھ لوگوں کے حوالے کر کے آیا ھوں۔ 
پچھلے سال سے میرے گھر میں ماں کے لیے اتنی مصیبتیں ہوگئیں  کہ بیوی نے قسم کھا لی کی "میں ماں جی کا دھیان نہیں رکھ سکتی"
نا تو یہ ان سے بات کرتی تھی اور نہ میرے بچے ان سے بات کرتے تھے۔  
روز میرے کورٹ سے آنے کے بعد ماں بہت روتی تھی۔ 
نوکر تک بھی ان سے خراب طرح سے پیش آتے تھے۔ اور اپنی منمانی کرتے تھے۔ 
ماں نے ۱۰ دن پہلے بول دیا ۔۔۔۔۔، تو مجھے اولڈ ایج ھوم میں ڈال دے۔۔ میں نے بہت کوشش کی پوری فیملی کو سمجھانے کی، لیکن کسی نے ماں سے سیدھے منہ بات تک نہیں کی۔ 
                     جب میں دو سال کا تھا تب ابو انتقال کرگئے تھے۔ ماں  نے دوسروں کے گھروں میں کام کر کے *مجھے پڑھایا* اس قابل بنایا کے میں آج ایک جج ھوں،
لوگ بتاتے ہیں کہ ماں دوسروں کے گھر کام کرتے وقت کبھی بھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑتی تھی۔ 
اس ماں کو میں آج اولڈ ایج ھوم میں چھوڑ آیا ہوں۔ میں اپنی ماں کی ایک ایک دکھ کو یاد کرکے تڑپ رہا ہوں جو انھوں نے صرف میرے لئے اٹھائے  تھے۔ 
           مجھے آج بھی یاد ھے جب میں میٹرک کے امتحان دینے والا تھا۔ ماں میرے ساتھ رات۔ رات بھر بیٹھی رہتی تھی۔ 
ایک بار  جب میں اسکول سے گھر آیا تو ماں کو بہت زبردست بخار میں مبتلا پایا۔۔۔پورا جسم گرم اور تپ رہا تھا۔ میں نے ماں سے کہا تجھےتیز بخار ہے۔ تب ماں ہنستے ہوئے بولی ابھی کھانا بنا کر آی ہوں اس لئے گرم ہے۔ 
لوگوں سے ادھار مانگ کر مجھے دھلی یونیورسٹی سے *ایل ایل بی* تک پڑھایا۔
 مجھے ٹیوشن تک نہیں پڑھانےدیتی تھی۔ کہیں میرا وقت برباد نہ ہو جائے۔ 
کہتے کہتے رونے لگے۔۔ ۔۔ اور کہنے لگے۔ جب ایسی ماں کے ہم نہیں ھو سکے تو اپنے بیوی اور بچوں کے کیا ہونگے۔ 
ہم جنکے جسم کے ٹکڑے ہیں، آج ہم انکو ایسے لوگوں کے حوالے کر آئے '؛ '''جو انکے عادت، انکی بیماری، انکے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ہیں۔۔ جب میں ایسی ماں کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتا تو میں کسی اور کے لئے بھلا کیا کر سکتا ہوں۔ 
آذادی اگر اتنی پیاری ھے اور ماں اتنی بوجھ ہے تو، میں پوری آزادی دینا چاہتا ہوں۔ 
جب میں بغیر باپ کے پل گیا تو یہ بچے بھی پل جاینگے۔اسی لیے میں طلاق دینا چاہتا ہوں۔ 
ساری پراپرٹی میں ان لوگوں کے حوالے کرکے  اس اولڈ ایج ھوم میں رہوں گا۔ وہاں کم سے کم ماں کے ساتھ رہ تو سکتا ہوں۔ 
اور اگر اتنا سب کچھ کر نے کے باوجود ماں، آشرم میں رہنے کے لئے مجبور ہے ۔ 
تو ایک دن مجھے بھی آخر جانا ہی پڑے گا۔ 
ماں کے ساتھ رہتے۔ رہتے عادت بھی ھو جائےگی۔
 ماں کی طرح تکلیف تو نہیں ہوگی۔
 جتنا بولتے اس سے بھی زیادہ رو رہے تھے۔ 
اسی درمیان رات کے 12:30ھوگیے۔ میں نے بھابی جی کے چہرے کو دیکھا۔ 
انکے چہرے پچھتاوے کے جذبات سے بھرے ہوئےتھے۔ 
میں نے ڈرائیور سے کہا " ابھی ہم لوگ نوئیڈا چلیں گے۔  بھابی جی ؛ بچے، اور ہم سارے لوگ نوئیڈا پہونچے،
  بہت زیادہ گزارش کرنے پر گیٹ کھلا۔ 
بھای صاحب نے گیٹ کیپر کے پیر پکڑ لیے ۔ بولے میری ماں ہے۔ میں اسے لینے آیا ہوں۔ 
چوکیدار نے پوچھا "کیا کرتے ہو صاحب" ؟ 
بھای صاحب نے کہا۔ میں ایک جج ہوں۔ 
اس چوکیدار نے کہا "جہاں سارے ثبوت سامنے ہے۔ تب تو آپ اپنی ماں کے ساتھ انصاف نہیں کر پائے ۔ اوروں کے ساتھ کیا انصاف کرتے ہونگے صاحب۔
 اتنا کہ کر ہم لوگوں کو وہیں روک کر وہ اندر چلا گیا۔ 
اندر سے ایک عورت آی جو وارڈن تھی۔ اسنے بڑے زہریلے لفظ میں کہا۔  2 بجے رات کو آپ لوگ لے جاکے کہیں  اسے مار دیں تو میں اللہ کو کیا جواب دونگی، ؟ 
میں نے وارڈن سے کہا "بہن آپ یقین کیجئے یہ لوگ بہت  پچھتاوے میں جی رہے ہیں، ۔ 
آخر میں کسی طرح انکے کمرے میں لے گئی 
۔ کمرے کا جو نظارہ تھا اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ 
صرف ایک فوٹو جس میں پوری فیملی ہے۔، وہ بھی ماں کے بغل میں جیسے بچے کو سلا رکھا ھے۔ 
مجھے دیکھی تو اسے لگا کہیں بات نہ کھل جائے۔ 
لیکن جب میں نے کہا کہ ھم لوگ آپ کو لینے آے ھیں۔ تو پوری فیملی ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگی۔  آس پاس کے کمروں میں اور بھی بزرگ تھے۔ سب لوگ جاگ کر باہر تک ہی آگئے۔ انکی بھی آنکھیں نم تھیں۔ 
کچھ وقت کے بعد چلنے کی تیاری ھوی۔ پورے آشرم کے لوگ باہر تک آے۔ کسی طرح ہم لوگ آشرم کے لوگوں کو چھوڑ پائے ۔
 سب لوگ اس امید سے دیکھ رہے تھے، شاید انہیں بھی کوئی لینے آئے۔ 
راستے بھر بچے اور بھابی جی تو چپ چاپ رہے۔ مگر ماں اور  بھای صاحب ایک دوسرے کے جذبات کو اپنے پرانے رشتے پر بٹھا رہے تھے۔ گھر آتے آتے قریب 3:45 ھو گیا۔ 
بھابی جی بھی اپنی خوشی کی چابی کہاں ہے۔ یہ سمجھ گئی تھیں۔ 
میں بھی چل دیا لیکن راستے بھر وہ ساری باتیں اور نظارے آنکھوں میں گھومتے رھے۔ 
*ماں صرف ماں ھے*
اسکو مرنے سے پہلے نہ ماریں۔ 
ماں ہماری طاقت ہے۔ اسے کمزور نہیں ھونے دیں۔ اگر وہ کمزور ہو گئی تو ثقافت کی ریڑھ کمزور ھو جاۓگی ۔ اور بنا ریڑھ کا سماج کیسا ھوتا ھے۔ یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ھے۔ 
اگر آپ کے آس پاس یا رشتہ دار میں اسطرح کی کوئی مسئلہ ھو تو؛ انھیں یہ ضرور پڑھوایں اور اچھی طرح سمجھایں ؛  کچھ بھی کرے لیکن ھمیں جنم دینے والی ماں کو بے گھر ، بے سہارا نہیں ہونے دیں۔  اگر ماں کی آنکھ سے آنسو گر گئے تو یہ قرض کئی سالوں  تک رہے گا۔ 

یقین مانیں سب ھوگا  تمہارے پاس لیکن سکون نہیں ھوگا۔ 
سکون صرف ماں کے آنچل میں ھوتا ھے۔ اس آنچل کو بکھرنے مت دینا۔ 

اس دل کو چھو لینے والی داستان کو خود بھی پڑھیں۔ اور اپنے بچوں کو بھی پڑھنے کو دیں۔۔ تاکہ اس سے عبرت. 
حاصل ہو. 
A factual article on mother obedience

A judge to his wife

Why are you divorcing ????

Hair-raising

True story

There was an incident last night that touched many aspects of life.

It will be around 7 pm, the mobile phone rang. When I picked it up, the sound of crying from here ...

I silenced him and asked, "Bhabhi ji, what happened?"

The voice came from here. Where are you? And how long can come?

I said tell me the problem and where is brother? ۔ And where is the mother? What happened?

But from now on, you can come immediately with only one writ.

I reassured him that it would take an hour to arrive. As I reached the third panic.

I saw that Bhai Sahib (who is my judge friend) was sitting in front.

Sister-in-law is crying and screaming An 8-year-old son is also upset and his 8-year-old daughter is not getting anything.

I asked Bhai Sahib, "What is the matter?"

Bhai Sahib was not giving any answer.

Then the sister-in-law said; Here are the divorce papers.

Prepared by the court. They want to divorce me.

I asked, "How can this be? It's such a good family. It has two children. Everything is settled. At first glance, I thought it was a joke.

But I asked the children where Grandma was. So the kids told Papa shifted him to an "old age home" in Noida three days ago.

I said to the servant; Tea for me and my brother

After a while, I tried to make tea for Bhai Sahib. But they did not drink. And soon they burst into tears like innocent children. And he said, I have not eaten anything for seven days. I have handed over my 61-year-old mother to some people.

There have been so many problems for my mother in my house since last year that she swore, "I can't take care of my mother."

Neither did she talk to them, nor did my children talk to them.

My mother used to cry a lot after coming from my court every day.

Even the servants treated them badly. And did their own thing.

My mother said 3 days ago ... then put me in an old age home ... I tried hard to convince the whole family, but no one even spoke directly to my mother.

Abu died when I was two years old. My mother * taught * me to work in other people's homes, enabling me to be a judge today.

People say that my mother never left me alone while working in other people's houses.

I left this mother in an old age home today. I am tormented by the memory of each and every sorrow of my mother which she had borne only for me.

I still remember when I was about to take the matriculation exam. Mom with me at night. Sat up all night

Once when I came home from school, I found my mother suffering from a high fever ... her whole body was hot and feverish. I told my mother you have a high fever. Then my mother laughed and said that I have just come to cook so it is hot.

Borrowing from people, he taught me from Delhi University to * LLB *.

I was not even allowed to teach tuition. Don't waste my time.

He started crying while saying ... ... And began to say. What will happen to his wife and children when we cannot have such a mother?

We who have body parts, today we handed them over to such people '؛ "Those who don't know anything about their habits, their illness, their ..." When I can't do anything for such a mother, what can I do for anyone else?

If freedom is so sweet and mother is such a burden, I want to give full freedom.

When I go to the bridge without a father, these children will also go to the bridge. That is why I want to divorce.

I will hand over the entire property to these people and live in this old age home. At least I can live there with my mother.

And if after doing so much, the mother is forced to stay in the ashram.

So one day I will have to go.

Live with mom It will also become a habit.

It won't hurt like mother.

They were crying even more than they said.

In the meantime, it will be 12:30 p.m. I saw my sister-in-law's face.

His face was full of remorse.

I said to the driver, "We are going to Noida now.

The gate opened on too much request.

Bhai Sahib grabbed the gatekeeper's legs. They said my mother. I came to get it.

The watchman asked, "What are you doing, sir?"

Bhai Sahib said. I am a judge.

The watchman said, "Where all the evidence is in front of you. Then you could not do justice to your mother. How can you do justice to others, sir?"

So he stopped us and went inside.

Inside came a woman who was a warden. He said in a very poisonous word. What will I answer to Allah if you take him at 2 o'clock at night and kill him?

I said to the warden, "Sister, believe me, these people are living in great remorse."

Eventually she was somehow taken to his room

۔ It is difficult to describe in words what the room looked like.

Just a photo of the whole family, holding the baby next to the mother.

When he saw me, he didn't want to talk.

But when I said we came to pick you up. So the whole family hugged each other and started crying. There were other elders in the surrounding rooms. Everyone woke up and came out. His eyes were wet too.

After some time I was ready to walk. People from all over the ashram came out. Somehow we were able to leave the people of the ashram.

Everyone was watching with hope, maybe someone came to get them too.

The children and sister-in-law remained silent along the way. But mother and brother were putting each other's feelings on their old relationship. It was about 3:45 on the way home.

Where is the key to your happiness? It was understood.

I walked too but all the way along the way all the words and scenes kept rolling in my eyes.

* Mom is just mom *

Don't kill him before he dies.

Mother is our strength. Don't let it weaken. If it weakens, the backbone of culture will weaken. And what is a spineless society like? It is not hidden from anyone.

If there is a problem like this around you or a relative; Be sure to read it to them and explain it well. Do anything but don't let our birth mother be homeless, helpless. If tears fall from the mother's eyes, this debt will last for many years.

Believe me, you will have everything, but you will not have peace.

Peace is only in the mother's womb. Don't let this ankle scatter.

Read this touching story yourself. And let your children read too. So that he can learn a lesson from i .ے 

1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں