No data received from your website yet. شکر کی اہمیت اور فضیلت قرآن و حدیث کی روشنی میں

 بسم اللہ الر حمٰن الر حیم

شکر کی اہمیت اور فضیلت قرآن و حدیث کی روشنی میں


مذہب اسلام میں شکر کی جتنی اہمیت ہے شاید ہی اتنی اہمیت کسی اور مذہب میں ہو۔ 

اللہ نے قرآن میں جگہ جگہ اپنی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ نعمتیں ہم نے تمہیں اس لئے بخشی ہیں تاکہ تم میرا شکر ادا کرو۔ مثلاً:

سورہ نحل میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتاہے:

"اور اللہ ہی نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے پیدا کیا جبکہ تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے اور اسی نے تمہارے کان، آنکھیں اور دل بناۓ تاکہ تم شکر ادا کرو"

(سوره النحل:78) 


سورہ واقعہ میں پانی کی نعمت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے۔:

"کیا تم نے کبھی غور کیا کہ یہ پانی جو تم پیتے ہو۔ کیا تم نے اسے بادل سے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اسے سخت کڑوا بنا کر رکھ دیں، پھر تم شکر ادا کیوں نہیں کرتے؟؟ 

(سورة الواقعة:68,70, 69) 

 سورہ قصص میں اللہ فرماتا ہے:

"اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم اس (رات) میں آرام کرو اور دن میں اللہ کا دیا ہوا رزق تلاش کرو اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔ 

(سورہ قصص:73) 


سورہ ابراہیم میں اللہ رب العزت اپنی نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ :


"اللہ ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے بارش برسایا پھر اس سے تمہارے کھانے کے لئے پھل پیدا کئےاور کشتیوں کو تمہارے تابع کیا تاکہ دریا میں اس کے حکم سے چلیں۔ اور نہروں کو بھی تمہارے زیر فرماں کیا ۔ اور سورج اور چاند کو تمہارے کام میں لگا دیا کہ دونوں ایک قانون کے مطابق چل رہے ہیں۔ اور رات اور دن کو بھی تمہارے خاطر کام میں لگا دیا۔ اور جو کچھ تم نے مانگا ہر چیز سے تمہیں نوازا۔ اور اگر اللہ کی نعمتیں گنتی چاہو تو گن نہ سکو۔ یقیناً انسان بڑا ہی ظالم اور ناشکرا ہے۔

 (سورہ ابراہیم:32، 33، 34)


اللہ کو جہاں شکر کرنا بہت پسند ہے وہیں ناشکری کو اللہ بہت ناپسند کرتاہے۔

اللہ کا شکر ادا کرنے سے جہاں اللہ کا نعمتوں میں اور اضافہ کردیتا ہے وہیں ناشکری کرنے سے انسان اللہ کے عذاب کا شکار بھی ہوجاتاہے۔ 

اللہ رب العزت فرماتا ہے: اور جبکہ تمہارے رب نے یہ اعلان کیا کہ اگر تم شکر ادا کروگے تو یقیناً میں تمہیں اور دوں گا۔ اور اگر ناشکری کروگے تو پھر یاد رکھنا میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے۔ (سورہ ابراہیم:7) 

صحیح بخاری میں اللہ کے رسول ﷺ نے اللہ کا شکر ادا کرنے اور ناشکری کے متعلق تین لوگوں کا واقعہ بیان فرمایا جو یقیناً سارے انسانوں کے لئے درس عبرت یے:


 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے، ایک کوڑھی، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کا امتحان لے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا۔ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اچھا رنگ اور اچھی چمڑی کیونکہ مجھ سے لوگ پرہیز کرتے ہیں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کا رنگ بھی خوبصورت ہو گیا اور چمڑی بھی اچھی ہو گئی۔ فرشتے نے پوچھا کس طرح کا مال تم زیادہ پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ اونٹ! یا اس نے گائے کہی، اسحاق بن عبداللہ کو اس سلسلے میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے دونوں میں سے ایک نے اونٹ کی خواہش کی تھی اور دوسرے نے گائے کی۔ چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا، پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ عمدہ بال اور موجودہ عیب میرا ختم ہو جائے کیونکہ لوگ اس کی وجہ سے مجھ سے پرہیز کرتے ہیں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے بجائے عمدہ بال آ گئے۔ فرشتے نے پوچھا، کس طرح کا مال پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ گائے! بیان کیا کہ فرشتے نے اسے حاملہ گائے دے دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے گا۔ پھر اندھے کے پاس فرشتہ آیا اور کہا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آنکھوں کی روشنی دیدے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے واپس دے دی۔ پھر پوچھا کہ کس طرح کا مال تم پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ بکریاں! فرشتے نے اسے حاملہ بکری دے دی۔ پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے، یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی، گنجے کی گائے بیل سے اس کی وادی بھر گئی اور اندھے کی بکریوں سے اس کی وادی بھر گئی۔ پھر دوبارہ فرشتہ اپنی اسی پہلی شکل میں کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین و فقیر آدمی ہوں، سفر کا تمام سامان و اسباب ختم ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں، لیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ اور اچھا چمڑا اور مال عطا کیا، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر کو پورا کر سکوں۔ اس نے فرشتے سے کہا کہ میرے ذمہ حقوق اور بہت سے ہیں۔ فرشتہ نے کہا، غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں، کیا تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کھاتے تھے۔ تم ایک فقیر اور قلاش تھے۔ پھر تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں عطا کیں؟ اس نے کہا کہ یہ ساری دولت تو میرے باپ دادا سے چلی آ رہی ہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اپنی اسی پہلی صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی درخواست کی اور اس نے بھی وہی کوڑھی والا جواب دیا۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا، اپنی اسی پہلی صورت میں اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں، سفر کے تمام سامان ختم ہو چکے ہیں اور سوا اللہ تعالیٰ کے کسی سے حاجت پوری ہونے کی توقع نہیں۔ میں تم سے اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں تمہاری بینائی واپس دی ہے، ایک بکری مانگتا ہوں جس سے اپنے سفر کی ضروریات پوری کر سکوں۔ اندھے نے جواب دیا کہ واقعی میں اندھا تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی اور واقعی میں فقیر و محتاج تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا۔ تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو، اللہ کی قسم جب تم نے اللہ کا واسطہ دیا ہے تو جتنا بھی تمہارا جی چاہے لے جاؤ، میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا۔ فرشتے نے کہا کہ تم اپنا مال اپنے پاس رکھو، یہ تو صرف امتحان تھا اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے۔ 

(Sahi bukhari:3464)


 ناشکری کا برا انجام ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العزت سورہ نحل میں لوگوں کو یوں نصیحت کرتا ہے:


اللہ تعالی ایک بستی کی مثال بیان کرتا ہے جس میں امن اور چین تھا اور ہر طرف سے اس کا رزق فراوانی کے ساتھ اسے پہنچ رہا تھا۔ پھر اس نے اللہ کے نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ تعالی نے اس بستی والوں کے کرتوتوں کے نتیجے میں ان پر بھوک اور خوف کا عذاب مسلط کر دیا۔ (سورہ نحل:112) 


اس آیت کریمہ سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ جب تک کسی ملک، قوم، سماج اور بستی کے لوگ اللہ تعالی کے شکر گزار بندے بنے رہتے ہیں تب تک وہ ملک امن و سلامتی کا گہوارہ بنا رہتا ہے، اس کے باشندوں کے پاس ہر طرف سے رزق پہنچتا ہے اور اس کی معیشت با برکت ہو جاتی ہے اور جب وہ اللہ کی ناشکری کرتے ہوئے نافرمان بن جاتے ہیں تو امن و سلامتی کی نعمت چھن جاتی ہے ، دشمن کا خوف مسلط ہوجاتا ہے، رزق اور معیشت میں بے برکتی آجاتی ہے۔ اور بھوک و پیاس کا عذاب ان کا مقدر بن جاتا ہے۔


اور آج اگر ہم بحیثیت مجموعی مسلمانوں کی حالت زار کا جائزہ لیں تو یہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ بھوک وپیاس، تنگدستی نے مسلمانوں کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔ امن و شانتی کی دولت سے ہم محروم ہو چکے ہیں، دشمنان اسلام کا خوف ہمارے اوپر مسلط ہوچکاہے۔ آخر کیوں؟؟؟؟ 

یقیناً اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اللہ کے شکر گذار بندے نہ رہے، اس کا دیا ہوا رزق کھاکر، اس کا دیا ہو پانی ہی کر ، اس کی بنائی ہوئی زمین پر بسیرا کرکے کسی اور کو ہم نے داتا، دستگیر، غریب نواز اور غوث اعظم قرار دے دیا۔ اس کا گھر آباد کرنے کے بجائے ہم نے مزاروں، درباروں اور خانقاہوں کے چوکھٹ چومنا شروع کردیئے۔بدعت پرستی میں آج کا مسلمان بری طرح لت پت ہو چکاہے۔ کتاب وسنت کی سیدھی شاہراہ کو چھوڑ کر تقلیدی جکڑبندیوں میں جکڑ گئے ہیں ہم آج۔ یعنی علامہ اقبال کے الفاظ میں یوں کہیں:

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود 

یہ ہیں وہ مسلماں جنہیں دیکھ کر شرمائیں ہنود


یوں تو سید بھی مرزا بھی ہو افغاں بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلماں بھی ہو۔ں تو

اگر آج بھی ہم اللہ کا شکرگزار بندہ بن کر زندگی گذارنی شروع کردیں تو اللہ فرماتا یے :

اگر تم لوگ اللہ کا شکر ادا کرو اور خلوص نیت سے ایمان لے آؤ تو اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں عذاب دے۔اللہ تعالیٰ تو سب سے بڑا قدردان اور

جاننے والا ہے۔ (سورۃ النساء:147)



In the name of God, Most Gracious, Most Merciful


The importance and virtue of thanksgiving in the light of Qur'an and Hadith

Gratitude is as important in Islam as it is in any other religion. After mentioning His blessings in various places in the Qur'an, Allah said, "We have bestowed these blessings on you so that you may give thanks to Me." For example: In Surah An-Nahl, Allah, the Exalted, says: "And Allah has created you from the wombs of your mothers while you knew nothing, and He has made for you hearing and sight and hearts that you may give thanks." (An-Nahl: 78) Mentioning the blessing of water in Surah Al-Waqi'ah, he said: "Have you ever considered the water you drink? Did you send it down from the cloud, or are We the senders? If We willed, We could have made it bitter, then why do you not give thanks?" ?? (Surat al-Waqi'ah: 68,70, 69) In Surah Qasas, Allah says: And by His Mercy He has made for you the night and the day, that you may rest therein, and that you may seek the provision of Allah during the day, and that you may give thanks. (Surat al-Qasas: 73) In Surah Ibrahim, Allah, the Exalted, mentions His blessings. : It is Allah Who created the heavens and the earth, and sent down rain from the sky, then brought forth fruits for your sustenance, and made the ships subservient to you, that they may follow His command in the sea, and made the rivers subservient to you. And He has made the sun and the moon subservient to you according to a single law, and He has made the night and the day subservient to you, and He has given you all that you ask for. If you want to count the blessings, you cannot count them. Indeed, man is very unjust and ungrateful. (Surah Ibrahim: 32, 33, 34) Where Allah loves to give thanks, He dislikes ingratitude. Giving thanks to Allah not only increases the blessings of Allah but also makes a person a victim of Allah's punishment by being ungrateful. Allah, the Lord of Glory, says: And when your Lord declares that if you give thanks, surely I will give you more. And if you are ungrateful, then remember My punishment is severe. (Surah Ibrahim: 7) In Sahih Bukhari, the Messenger of Allah (peace and blessings of Allah be upon him) narrated the story of three people about giving thanks to Allah and being ungrateful, which is surely a lesson for all human beings: The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: There were three people in the Children of Israel, one a leper, the other blind and the third bald. Allaah wanted to test them. So Allah sent an angel to them. The angel first came to the leper and asked him, "What do you like most?" He replied that good color and good skin because people abstain from me. He narrated that the angel touched his hand and his disease disappeared and his complexion became beautiful and his skin became good. The angel asked, "What kind of wealth would you prefer?" He said camel! Or he said cow, Ishaq ibn Abdullah doubted that one of the lepers and the bald man wanted a camel and the other a cow. So she was given a pregnant camel and it was said that Allah will bless you in it. Then the angel came to the bald man and asked him what do you like? "I have fine hair and the current flaw is gone because people avoid me because of it," he said. He narrated that the angel touched his head and his defect went away and good hair came instead. The angel asked, "What kind of wealth would you like?" He said cow! He narrated that the angel gave him a pregnant cow and said that Allah Almighty would bless him. Then the angel came to the blind man and said, "What do you like?" He said that Allah Almighty gave me the light of my eyes so that I could see people. He narrated that the angel turned his hand and Allah Almighty restored his sight to him. Then he asked, "What kind of wealth would you like?" He said goats! The angel gave her a pregnant goat. Then the children of the three animals were born, until the valley was filled with the camels of the leper, the valley was filled with the oxen of the bald cow, and the valley was filled with the goats of the blind. Then the angel again came to the leper in his first form and said, "I am a very poor man, all the means of travel are gone, and there is no hope of meeting anyone except Allah." I am asking you about a camel with which I can complete the journey, referring to the one who gave you good color and good leather and wealth. He said to the angel, "I have many more rights." The angel said, "Maybe I know you. Didn't you have leprosy which made people hate you?" You were a poor man. Then Allah Almighty gave you these things? He said that all this wealth is coming from my ancestors. The angel said, "If you are a liar, may Allah return you to your former state." Then the angel came to Ganja in his first form and made the same request to him and he also gave the same leper answer. The angel said, "If you are a liar, may Allah return you to your former state." Then the angel came to the blind man, in his first form, and said, "I am a poor man, all my belongings are gone, and no one is expected to meet my needs except Allah." I refer you to the One who has restored your sight.

I would like a goat to meet my travel needs. The blind man replied that he was really blind and Allah Almighty gave me sight by His grace and I was really poor and needy and Allah Almighty made me rich. You can take as many goats as you want. By Allah, when you have given your allegiance to Allah, take as many as you want. I can never stop you. The angel said, "Keep your wealth with you. It was only a test, and Allah is pleased with you and pleased with you, and He is angry with your two companions."


(Sahi bukhari: 3464)


 Mentioning the bad end of ingratitude, Allah, the Exalted, admonishes the people in Surah An-Nahl as follows:


Allah Almighty gives the example of a town in which there was peace and tranquility and its sustenance was reaching it in abundance from all sides. Then he became ungrateful to the blessings of Allah, so Allah Almighty imposed on them the torment of hunger and fear as a result of their deeds. (Surat an-Nahl: 112)


From this verse we learn that as long as the people of a country, nation, society and town remain grateful servants of God Almighty, that country remains the cradle of peace and security. Sustenance comes from the side and its economy becomes blessed and when they become disobedient while disobeying Allah, the blessing of peace and security is taken away, fear of the enemy is imposed, there is no blessing in the provision and economy. Is. And the torment of hunger and thirst becomes their destiny.


And today, if we look at the plight of Muslims as a whole, it is clear that hunger, thirst and hardship have engulfed Muslims. We have been deprived of the wealth of peace and tranquility, the fear of the enemies of Islam has been imposed on us. But why????


Certainly, one of the reasons for this is that we are no longer grateful servants of Allah. Declared Gharib Nawaz and Ghaus Azam. Instead of settling his house, we started kissing the thresholds of shrines, courts and monasteries. Today's Muslim has become badly addicted to heresy. Leaving the straight path of the Book and Sunnah, we are stuck in imitative shackles today. In other words, in the words of Allama Iqbal:


You are a Christian in nature, you are a Hindu in civilization


These are the Muslims whom Hindus are ashamed to see



In this way, both Syed and Mirza are Afghans


If you are everything, then you are also a Muslim


If even today we start living as grateful servants of Allah, then Allah says:


If you give thanks to Allah and believe sincerely, then why should Allah punish you? Allah is the Most Appreciative, and Knower (Surat an-Nisa ': 147)

Post a Comment