No data received from your website yet. ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہااور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم

نام و نسب


حضرت ام ّ سلمہ کا اصل نام ہند بنت ابی امیہ زیادہ معروف تھا۔ اگرچہ بعض روایات میں رملہ بھی مذکور ہے۔ آپؓ اپنے بیٹے سلمہ کی وجہ سے ام سلمہؓ کی کنیت سے مشہور تھیں۔ان کے والد کا نام سہیل اوربعض روایات کے مطابق حذیفہ بیان کیا جاتا ہے جن کی کنیت ابو امیہ تھی۔وہ پورے عرب میں اپنی سخاوت کی وجہ سے”زادالراکب” کےلقب سے مشہور تھے یعنی مسافروں کو زادِ راہ مہیا کرنے والے۔سہیل اپنے ہم سفروں کی مہمان نوازی اور میزبانی کابہت خیال رکھتے تھے یہاں تک کہ انکے ہمراہیوں کو زادِ راہ ساتھ لانے کی ضرورت نہ ہوتی۔ وہ خودان سب کے لئے مہمان نوازی کے جملہ انتظام اس شوق سے کرتے کہ ان کا لقب ہی “زاد الراکب” پڑ گیا۔ گویا وہ مسافر وں کے لئے مجسّم زادراہ ہیں۔


حضرت ام ّ سلمہ کے والد کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو مخزوم سے تھا۔ والدہ عاتِکہ بنت عامر بھی قریش کی شاخ میں سے تھیں۔بعض روایات میں ان کا نام عاتکہ بنت عبد المطلب مذکورہے یہ دراصل آپؓ کی سوتیلی والدہ کا نام تھاجو آنحضورﷺ کی پھوپھی تھیں۔ ان سےآپؓ کے دو بھائی عبداللہ اور زھیر تھے۔


ہجرت حبشہ و مدینہ

حضرت ام سلمہ ؓنے اپنے شوہر حضرت ام سلمہ کے ساتھ انتدائی زمانے میں اسلام قبول کرنے کی تو فیق پائی، مصائب و مشکلات کے کے ابتدائی مکی دور میں جب حضور ﷺ نے اپنے اصحاب کو پہلی دفعہ ہجرت کی اجازت دی تو حضرت ام سلمہؓ کو ہجرت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ۔ہبشہ سے مکہ واپس آئیں تو دوبارہ مدینہ ہجرت کرنی پڑی ۔اس موقع پر ایک بہت بڑا ابتلاٗ بھی آپ کو پیش آیا ۔جس میں آپؓ نے کمال استقامت کا نمونہ دکھایا، اور اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو سرخرو فرمایا۔


واقعہ یوں ہوا کہ حضرت ابوسلمہ اپنے بیٹے سلمہ اور بیوی ام ّ سلمہ کے ساتھ جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ جانے لگے توامّ سلمہ کے قبیلہ کے لوگوں نے کہا کہ ہم اپنی بیٹی کو تمہارے ساتھ نہیں جانے دیں گے۔یوں ابو سلمہؓ بیوی بچوں کی قربانی دے کر تن تنہا ہجرت کرکے مدینہ پہنچ گئے۔کچھ عرصہ بعد حضرت ابو سلمہ کے اہل خاندان نے مطالبہ کیا کہ سلمہ ہمارے بیٹے کی اولاد ہےجس پر ہمارا حق ہے اس لئےوہ ہمیں دے دیا جائے۔سلمہ اس وقت کم سن بچہ تھا۔ جسے انہوں نے حضرت امّ سلمہؓ سے چھین کرالگ کرلیا۔حضرت ام سلمہ کو اپنے خاوند اور معصوم بچے سے جدا ئی کاصدمہ ملا، یہ عرصہ نہایت بے چینی اور اذیت میں گزارناپڑا۔بالآخر ایک سال کے بعد حضرت ابو سلمہؓ کے گھر والوں نے ماں کوبچہ واپس کیا اور حضرت امّ سلمہؓ اسے لیکر اپنے شوہر کے پاس مدینہ پہنچ گئیں۔ حضرت ام ّ سلمہ کو یہ دوہری سعادت بھی عطاہوئی کہ دو ہجرتوں کی توفیق پائی۔پہلی ہجرت، حبشہ کے دُور دراز ملک میں اور دوسری مدینہ کی طرف۔آپؓ کو پہلی ہجرت کرنے والی خاتون بھی کہاجاتاہے۔ شاید اس لئے بھی کہ تنہا ہجرت کرکے مدینہ آئیں۔ جبکہ ایک اور روایت کے مطابق حضرت لیلیٰؓ بنت خثیمہ زوجہ عامر بن ربیعہؓ بھی اس اوّلیت میں آپؓ کی شریک ہیں۔ حضرت ابوسلمہ سے آپؓ کی اولاد میں سلمہ اور عمر دوبیٹے اور دُرّہ اور زینب دو بیٹیاں تھیں۔


پہلے شوہر کی وفات


حضرت امّ سلمہؓ کے پہلے شوہرحضرت ابوسلمہ آنحضرتﷺ کے انتہائی وفاشعار صحابہ میں سےتھے۔انہوں نے غزوہ بدر میں شامل ہونے کی توفیق پائی اور شجاعت کے جوہر دکھائے، غزوہٴ احد میں بھی حضورؐ کے ساتھ کمال وفا اور اخلاص کے ساتھ شرکت کی۔ اور استقامت کا نمونہ دکھایا۔


غزوہ اُحد میں حضرت ابو سلمہؓ کو ایک بہت گہرا زخم بازو پرآیا تھاجوایک عرصہ تک مندمل نہ ہوا۔ تقریبا ً ایک ماہ کے علاج سے اچھاہوا۔ تیسرے سالِ ہجرت کے آخر میں حضورﷺ نے حضرت ابوسلمہ کوڈیڑھ سو سواروں کا امیر مقرر کرکے قطن کے پہاڑ کی طرف ایک مہم پر بھجوایا۔ ایک مہینہ کے قریب آپؓ اس مہم پر رہنے کے بعد مدینہ واپس لوٹے تو دوبارہ وہی زخم ہرا ہوگیا۔ بالآخراسی بیماری میں چوتھے سال ہجرت میں آپؓ کی وفات ہوئی۔


آنحضرتﷺ کا اپنے وفا شعار رفیق حضرت ابوسلمہ سے بہت ہی محبت اور پیار کا تعلق تھا۔ ان کی وفا ت پر حضورﷺ بنفس نفیس ان کے گھرتعزیت کے لئے تشریف لے گئے۔ آپؐ نے وہاں موجود لوگوں سے فرمایا کہ ابو سلمہ کے لئے یہ دعا کریں کہ


اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَبِى سَلَمَةَ وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِى الْمَهْدِیینَ وَاخْلُفْهُ فِى عَقِبِهِ فِى الْغَابِرِینَ وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُ یا رَبَّ الْعَالَمِینَ وَافْسَحْ لَهُ فِى قَبْرِهِ وَنَوِّرْ لَهُ فِیهِ


یعنی اے اللہ ان کو بخش دے اور ان پر رحم کر اور ہدایت یافتہ لوگوں میں ان کا درجہ بلند کردے۔ ان کے پیچھے رہنے والوں میں توخود ان کا جانشین ہوپھرآپؐ نے یہ دعا کی کہ “اے اللہ! ان کی قبر کو کشادہ کر اور اس میں ان کے لئے نور بھردے “


رسول اللہﷺ کی اس دعا سےاپنے اس وفا شعار صحابی کے ساتھ آپؐ کی گہری محبت کا بھی پتہ چلتاہے جو حضورﷺ کو تھی۔حضرت ابوسلمہ کی وفات کے بعد طبعاً آنحضرتﷺ کو ان کی بیوہ اور بچوں کی کفالت کے بارہ میں بھی فکرتھی۔ہمدردی کا یہی جذبہ آپؐ نے اپنے صحابہ میں بھی اجاگرکردیاتھا۔چنانچہ حضرت ابوسلمہ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے حضرت ام ّ سلمہ کو شادی کا پیغام بھیجا اور حضرت عمر نے بھی۔ لیکن حضرت ام ّ سلمہ نے مختلف وجوہات کی بناء پر معذرت کرلی۔


حضرت ابو سلمہؓ کے اخلاق فاضلہ


 حضر ت ام سلمہؓ فرمایاکرتی تھیں کہ میرے میاں ابو سلمہ بہت محبت اور احسان کرنے والے شوہر تھے۔ ایک دفعہ گھریلوماحول میں میری ابو سلمہ سے یہ بات ہوئی کہ کہتے ہیں اگر میاں بیوی میں سے کوئی فوت ہوجائے اور وہ جنتی ہو اور بعد میں اس کا ساتھی شادی نہ کرے تو وہ جنت میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ کیا آپ معاہدہ کرتے ہوکہ ہم دونوں میں سے اگر کوئی پہلے فوت ہوجائے تو جو پیچھے رہ جائے گا وہ شادی نہیں کرے گا۔ حضرت ابوسلمہ نے حضرت امّ سلمہؓ سے پوچھا کہ پہلے تم بتاوٴ کہ کیاتم اس کے لئے تیار ہوکہ اگر میں پہلے فوت ہوجاوٴں تو تم بعدمیں کسی سے نکاح نہیں کروگی۔انہوں نے کہا کہ میں تو ازخود یہ تجویز بہت سوچ سمجھ کر دے رہی ہوں کہ آپ کی وفات کے بعد میں نکاح نہیں کروں گی۔ خواہ آپ کی خاطر بیوگی کا لمبا زمانہ ہی کیوں نہ کاٹنا پڑے۔ ابو سلمہ نے کہا توپھر سُنومعاہدہ یہ ٹھہرا کہ اگر پہلے میں مرجاوٴں تو تمہیں لازماً نکاح کرناہوگا۔ تمہارے بعد میں نکاح کروں یا نہ تمہیں ضرور شادی کرنی ہوگی۔ پھر انہوں نے یہ دُعا کی کہ اے اللہ ! اگر پہلے میری وفات ہوجائے تو امّ سلمہ کو مجھ سے بھی بہترشخص عطافرمانا، تاکہ اسے کوئی پریشانی اور تکلیف نہ ہو، اوروہ اسے بہت آرام سے رکھے۔ حضرت امّ سلمہ فرماتی ہیں کہ جب ابو سلمہ فوت ہوئے توآنحضرتﷺ نے مجھے خاص طور پر صبر کی نصیحت کی۔ حالانکہ میں نے اس وقت یہ سوچا تھا کہ ہم ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ آئےہیں۔یہاں غریب الوطنی کی حالت میں میرے شوہرکی وفات ہو رہی ہے۔ میں ابوسلمہ کا ایسا بین کرونگی جو دنیا ایک زمانے تک یاد رکھے گی کہ کسی بیوی نے شوہر کی وفات پر بَین کئے تھے، اس کے لئے میں نے اپنی ایک سہیلی کو بھی کہہ رکھا تھا کہ تم بین کرنے میں میری مدد کرنااور وہ بے چاری میری خاطر آبھی گئی مگر ادھر آنحضرتﷺ نے اس مؤثّر انداز میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایاکہ اے امّ سلمہؓ ! کیا تم اس شیطان کو اپنے گھر میں داخل کروگی جسے اللہ تعالیٰ نے نکالا ہے ؟یہ بات آنحضرتﷺ نے دو مرتبہ دوہرائی جس پر حضرت امّ سلمہؓ نےسب رونا دھوناایسےبند کیا کہ پھر نہیں روئیں۔حضورﷺ نے مزید فرمایا کہ کسی بھی مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ اس پر صبر کرتے ہوئے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیهِ رَاجِعُونَ کہے۔ (یعنی ہم اللہ کے ہی ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں) اور پھر اس کے بعد یہ دعا کرے کہ اَللّٰهُمَّ أَجُرْنِى فِى مُصِیْبَتِى وَأَخْلِفْ لِى خَیرًا مِنْهَا۔ یعنی اے اللہ میری اس مصیبت میں میرے صبر کا اجر مجھے عطا کرنا۔ اور اس سے بہتر بدلہ مجھے دینا،تو اللہ تعالیٰ غیر معمولی طورپر اسے بہترین بدلہ عطافرماتاہے۔ حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ ابوسلمہ کی وفات کے بعد میں حیران ہوکر سوچتی تھی کہ ابو سلمہ سے بہتر بھی کوئی ہوسکتاہے ؟ وہ تو ایک عظیم انسان تھے، ان سے بہتر کوئی کیسے ہوسکتاہے؟ فرماتی ہیں دعا کرتے ہوئے اس فقرہ پر آکرمیں رک جاتی کہ ’’ان(ابوسلمہؓ) سے بہتر مجھے عطاکردے‘‘ لیکن آنحضرتؐ کی نصیحت کی بدولت اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ ہمّت اور توفیق دے دی اور میں نے یہ دعابھی کی پھریہ دعا ایک عجیب معجزانہ رنگ میں بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے آنحضرتﷺ عطافرمادئیے۔

اس سے آگے اگلے قسط میں بےان ہو گا انشا اللہ




In the name of God, Most Gracious, Most Merciful Umm Al-Mumineen Umm Salma and the Holy Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) Name and lineage Hazrat Umm Salma's real name was Hind bint Abi Umayyah. Although in some traditions Ramla is also mentioned. She was known by the nickname of Umm Salamah because of her son Salamah. Sohail was very careful about the hospitality and hospitality of his fellow travelers, even if he did not need to bring his companions with him. He himself would arrange all the hospitality for everyone with such enthusiasm that his nickname became "Zad-ul-Raqib". As if they are the embodiment of Zadra for the passengers. Hazrat Umm Salma's father belonged to the Banu Makhzoom branch of the Quraysh tribe. His mother Atiqa bint Amir was also from the branch of Quraysh. In some traditions her name is mentioned as Atiqa bint Abdul Muttalib. He had two brothers, Abdullah and Zahir. Emigration to Abyssinia and Medina Hazrat Umm Salma, along with her husband Hazrat Umm Salma, decided to convert to Islam in the early days. He was fortunate enough to do so. When he returned to Mecca from Abyssinia, he had to migrate to Madinah again. On this occasion, he also had a great affliction. It so happened that when Hazrat Abu Salma migrated from Makkah to Madinah with his son Salma and his wife Umm Salma, the people of Tawama Salma's tribe said that we will not allow our daughter to go with you. After some time, the family of Hazrat Abu Salma demanded that Salma is the son of our son to whom we have a right, so he should be given to us. Salma was a young child at that time. Which she snatched from Hazrat Umm Salma. Hazrat Umm Salma was traumatized by separation from her husband and innocent child. She had to spend this period in great anxiety and pain. She returned and Hazrat Umm Salma took her to Madinah with her husband. Hazrat Umm Salma was also blessed with the double happiness of two migrations. The first migration was to a distant country of Abyssinia and the second to Madinah. She is also called the first migrant woman. Probably because they migrated to Madinah alone. According to another tradition, Hazrat Laila bint Khathima, wife of Amir bin Rabia, also shares in this priority. He had two sons, Salma and Umar, and two daughters, Durra and Zainab


Hazrat Abu Salma's moral virtue


 Hazrat Tum Salamah used to say that my husband Abu Salamah was a very loving and kind husband. Once in a domestic environment, I had a conversation with Abu Salma who said that if one of the spouses dies and he is in Paradise and later his partner does not get married, then they are together in Paradise. Do you agree that if one of us dies first, the one who is left behind will not get married? Hazrat Abu Salamah asked Hazrat Umm Salamah to first tell me if you are ready for it so that if I die first then you will not marry anyone later. I will not marry after your death. Even if you have to spend a long time of widowhood for your sake. Abu Salamah said, "Then the agreement was that if I die first, then you must get married." Whether I get married after you or not, you must get married. Then they prayed: O Allah! If I die first, give Umm Salma a better person than me, so that she will not have any trouble and she will keep him very comfortable. Hazrat Umm Salma says that when Abu Salma passed away, the Prophet (sws) especially advised me to be patient. Although at that time I thought that we had migrated from Makkah to Madinah. Here my husband is dying in a state of poverty. I will treat Abu Salma in such a way that the world will remember for a long time that a wife had betrayed her husband's death, for which I had asked one of my friends to help me bet It was for my sake, but on the other hand, the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) advised in this effective manner and said: O Umm Salma! Will you admit the devil whom Allah has expelled into your house? This was repeated by the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) twice and Hazrat Umm Salma stopped crying so that she would not cry again. He added that any Muslim should be harmed. And he should be patient and say, إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا لَِلَيِهِ رَاجِعُونَ. (That is, we belong to Allah and to Him we will return.) That is, O Allah, give me the reward of my patience in this trouble. And give me a better reward than that, then Allah Almighty gives him the best reward in an extraordinary way. Hazrat Umm Salama says that after the death of Abu Salama, I was surprised and thought that there could be someone better than Abu Salama? He was a great man, how could anyone be better than him? She says that while praying, she would stop at the phrase, "Give me something better than him (Abu Salamah)." It was completed with great glory in a miraculous color that Allah Almighty bestowed on me.


Beyond that, it will be explained in the next episode, God willing.

www.natiquekizaban.com


Post a Comment