بسم اللہ الر حمٰن الر حیم
کسب معاش کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات
کئی سال پہلے (تقریبا نصف صدی ) کی بات ہے۔ پرتاپگڑھ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ایک بارہ سال کا بچہ بھیک مانگ رہا تھا، لڑکے کے بال اور دوسری علامتوں سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ لڑکا کسی پنجابی ( سکھ) کا ہے چونکہ ابھی اس نے ایک ہی دو روز سے یہ کام شروع کیا تھا اس وجہ سے جھجھک، پریشانی اور گھبراہٹ کے آثار اس کے چہرے پر باقی تھے۔۔
بچہ بھیک مانگتے مانگتے ایک سردار (پنجابی) کے پاس پہنچا۔۔ شاید دل میں یہ خیال بھی رہا ہوگا کہ سردار جی پلیٹ فارم پر کھڑے دوسرے مسافروں سے کچھ زیادہ ہی اسے دیں گے، اس لیے کہ وہ ان کی ہی برادری کا بچہ تھا۔ کسی برادری کا اپنی برادری کے بارے میں ہمدردی و محبت اور تعاون و امداد کا جذبہ ایک مشہور و معروف بات ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔۔ جب لڑکا سردار جی کے پاس پہنچا تو سردار جی نے اولا اسے نیچے سے اوپر تک بغور دیکھا اور پھر اس کے چہرے پر ایک تمانچا رسید کردیا۔۔ اور کہا تو اس لیے پیدا ہوا ہے کہ اپنی قوم کا نام ڈبو دے۔۔ اس کے بعد سردار جی نے بچہ کا ہاتھ پکڑا اور اسٹیشن سے باہر لیجا کر ایک ٹھیلے والے سے کچھ مونگ پھلیاں خرید کر ایک جگہ بٹھا دیا اور کہا :
لے شام تک اس کو بیچتا رہ کل مجھ سے پھر ملنا، لڑکے نے ایسا ہی کیا اور چند ہی دنوں کے بعد ہی معلوم ہوا کہ وہ لڑکا کافی کمائی کرنے لگا۔۔۔۔ (ماہنامہ نوائے ہادی فروری ۲۰۱۳ء)
یہ واقعہ ایک ایسی قوم کا ہے جس کے پاس نہ تو اسلام جیسی کوئی مذہبی طاقت ہے، اور نہ قرآن جیسا نظام زندگی، اور نہ ہی اصول معاشیات اور اقتصادیات۔۔ لیکن ہماری قوم (جس کے پاس اسلام جیسی مذھبی قوت ہے اور قرآن جیسا نظام زندگی) کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہماری قوم میں گداگری اور بھیک مانگنے کا رواج بڑ رہا ہے، لیکن ہم اپنی قوم کو اس کے پیر پر کھڑا کرکے خودداری اور خود اعتمادی والی زندگی گزارنے کا جذبہ اور حوصلہ پیدا نہیں کر رہے ہیں جو بہت ہی افسوس اور دکھ کی بات ہے۔۔۔۔
اسلام فقیری اور گداگری کی تعلیم نہیں دیتا ہے، سوال کرنے اور بلا ضرورت دست سوال پھیلانا، اسلام اس کو کسی طرح پسند نہیں کرتا اور نہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اسلام تو مانگنے اور سوال کرنے اور بلا ضرورت ہاتھ پھیلانے کو ذلت و رسوائی سے تعبیر کرتا ہے۔
اسلام نے جہاں زندگی کے تمام شعبوں میں مکمل رہنمائی کی، وہیں معاش اور کسب معاش کے سلسلے میں پوری وضاحت فرمائی، اور دین و دنیا دونوں کی بھلائی مانگنے کی تلقین کی، اور یہ بتایا کہ انسانی زندگی کے دو دور ہیں پہلے دور کا نام مذہب کی اصطلاح کے مطابق دنیا ہے اور دوسرے دور کا نام آخرت ہے۔۔۔ نبیﷺ نے زندگی کے دونوں حصوں کے درمیان تعلق پیدا کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔۔۔
مال و دولت زندگی کی اساس ہے، قرآن مجید نے مال کو زندگی کے قیام کی بنیاد اور اساس قرار دیا، کہیں مال و دولت کو خدا کا فضل قرار دیا گیا۔۔۔ سورہ آل عمران اور سورہ جمعہ میں اس کی تفصیل موجود ہے، کہیں مال کو خیر کے لفظ سے تعبیر کیا، پیارے آقاﷺ کی حیات مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ اگر آپ نے کسی پریشان حال مسلمان کو غم دنیا سے نجات پانے کے لیے کوئی دعا تعلیم فرمائی تو اس کے ساتھ ایک انصاری مسلمان کو یہ ہدایت فرمائی کہ تم بازار سے ایک کلہاڑی لاو، پھر حضور ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اس کلہاڑی میں لکڑی کا دستہ ڈالا۔ اور ان صحابی کو جنگل سے لکڑیاں کاٹنے اور پھر بازار میں فروخت کرنے کا حکم دیا اور فرمایا میں تمہیں پندرہ دن تک یہاں نہ دیکھوں، پندرہ دن کے بعد صحابی رسول ﷺ خدمت اقدسﷺ میں حاضر ہوئے اور ان کے پاس پندرہ درہم موجود تھے۔ آپ نے ان درھموں اور تجارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، یہ تیرے لیے بہتر ہے، سوال کرنے اور بھیک مانگنے سے۔۔ (ابو داود)
معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے بندوں کو صرف دعائیں تعلیم نہیں فرمایا کرتے تھے بلکہ ساتھ ساتھ محنت، کسب معاش کے طریقے اور ڈھنگ بھی بتایا کرتے تھے۔۔
وَعَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: «عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ
حضرت رافع بن خدیج ؓ بیان کرتے ہیں ، عرض کیا گیا ، اللہ کے رسول ! کون سا کسب سب سے پاکیزہ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور ہر اچھی تجارت ۔‘‘ رواہ احمد ۔
مشکاۃالمصابیح ۲۷۸۳
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «طَلَبُ كَسْبِ الْحَلَالِ فَرِيضَةٌ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شعب الْإِيمَان
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ فرائض کے بعد کسب حلال کی تلاش بھی فرض ہے ۔‘‘ ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
مشکاۃ المصابیح ۲۷۸۱
عَنْ أُمَّ سَلَمَةَ قَالَتْ: لَقَدْ خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تَاجِرًا إِلَى بُصْرَى، لَمْ يَمْنَعْ أَبَا بَكْرٍ الضَنِّ بِرَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شُحُّهُ عَلَى نَصِيبِهِ مِنَ الشُّخُوصِ لِلتِّجَارَةِ، وَذَلِكَ كَانَ لإِعْجَابِهِمْ كَسْبَ التِّجَارَةِ وَحُبِّهِمْ لِلتِّجَارَةِ، وَلَمْ يَمْنَعْ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَبَا بَكْرٍ مِّنَ الشُّخُوصِ فِي تِجَارَتِهِ لِحُبِّهِ صُحْبَتَهُ وَظَنِّهِ بِأَبِي بَكْرٍ، فَقَدْ كَانَ بِصُحْبَتِهِ مُعْجَبًا، لاسْتِحْسَانِ –وفي رواية: لِاسْتِحْبَابِ- رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِلتِّجَارَةِ، وَإِعْجَابِهِ بِهَا
ام سلمہ رضی اللہ عنہا كہتی ہیں كہ جب ابو بكر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے دور میں بصریٰ كی طرف تجارت كی غرض سے نكلےابوبکر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خصوصی تعلق نے بھی تجارت کے ذریعے کسب سے نہ روکا۔ کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تجارت کو بہت پسند کرتے تھے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنی محبت کی وجہ سے تجارت سے روکا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ساتھ رہنا پسند تھا (اور ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تجارت اس لئے کرتے تھے کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تجارت پسند تھی۔
سلسلۃ الصحیحہ۱۲۶۷
امام غزالی رحمة الله عليه نے احیاء العلوم میں توکل پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کسب معاش اور تجارت و زراعت کی جدوجہد سے کنارہ کش ہو کر دوسروں کی خیرات و عطیات پر نظر رکھنا توکل نہیں ہے، توکل کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کے حکم کے مطابق کسب معاش کے لیے بھرپور کوشش کی جائے، اور کوشش کے بعد نفع و نقصان کی جو صورت بھی پیش آئے، اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے یقین کرکے صبر و شکر اختیار کرے۔۔ امام غزالی رحمة الله عليه نے اس سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد نبوی ﷺ کی طرف سے گزرے اور دیکھا کہ وہاں کچھ لوگ بے وقت بیٹھے ہوئے ہیں، آپ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ کسی نے جواب دیا ھم المتوکلون، یہ لوگ اللہ پر توکل کرنے والے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، لا، بل ھم المتاکلون ۔۔ نہیں، بلکہ یہ لوگ مفت کھانے والے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ دین کا کام کرنے کے ساتھ ساتھ، تبلیغ و دعوت کے ساتھ ساتھ نماز و روزہ کے ساتھ ساتھ کسب معاش کی کوشش کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو سوال کرنے سے اس درجہ منع فرمایا اور اس کی تعلیم دی کہ وہ معمولی چیزیں مانگنے سے بھی احتراز کرتے تھے۔۔ اسلام نے توکل کی تعلیم ضرور دی، لیکن لوگوں نے جو بے عملی اور فرائض سے پہلو تہی کو توکل کا نام دے رکھا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اصلاح بھی فرمائی
اللہ رب العزت ہم تمام لوگوں کو محنت کر کے حلال کھانے کی توفیق عطا فر مائے اور رب ذو الجلال حلال روزی عطا فر مائے آمین
تمام امت مسلہ کے اللہ عز وجل ہدایت کا راستہ آسان بنا کردے آمین
مضامین پڑھنے کے بعد اوروں تک شیئر کیاکرین
In the name of God, Most Gracious, Most Merciful
The teachings of the Holy Prophet (sws) regarding earning a living That was many years ago (about half a century). A 12-year-old boy was begging on the platform of Pratapgarh railway station. Because of this, signs of hesitation, anxiety and panic remained on his face. The child approached a Sardar (Punjabi) begging. It may have been in his heart that Sardar G would give him a little more than the other passengers standing on the platform, because he was a child of his own community. It is a well-known fact that a community has a feeling of empathy, love and cooperation for its community, but it has not happened. When the boy reached Sardar Ji, Sardar Ji looked at him carefully from bottom to top and then received a pistol on his face. And he said that he was born to drown the name of his people. Sardar Ji then took the child's hand and took him out of the station, bought some peanuts from a stall holder and sat him down and said: Keep selling it till evening. See you again tomorrow. The boy did the same and after a few days it was found out that the boy started earning a lot. (Monthly Nawae Hadi February 9) This is the case of a nation that has no religious power like Islam, no way of life like the Qur'an, no principles of economics and economics. But the case of our nation (which has a religious force like Islam and a way of life like the Qur'an) is quite the opposite. The practice of begging and begging is on the rise in our nation, but we are not creating a spirit of self-reliance and self-confidence by putting our nation on its feet, which is very sad and unfortunate. ... Islam does not teach begging and begging, asking questions and asking for help unnecessarily, Islam does not like it in any way and does not encourage it. Interprets shame. While Islam gave complete guidance in all spheres of life, it gave full explanations regarding livelihood and occupation, and exhorted to seek the good of both religion and the world, and said that there are two stages of human life. According to the term of religion, there is a world and the name of the second age is the Hereafter. The Prophet, while creating a connection between the two parts of life, said, "The world is the harvest of the Hereafter." Wealth is the basis of life, the Qur'an has declared wealth as the basis and foundation of life, somewhere wealth has been declared as the grace of God. There is a description of this in Surah Al-Imran and Surah Jumu'ah. After teaching, he instructed an Ansari Muslim to bring an ax from the bazaar. Then the Holy Prophet put a wooden handle in the ax with his blessed hand. He ordered the Companions to cut wood from the forest and then sell it in the bazaar and said, "I will not see you here for fifteen days." Pointing to these dirhams and trade, he said, "It is better for you than to ask and beg." (Abu Dawud)
It turned out that the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) not only taught the servants of Allaah prayers but also taught them the methods of hard work and earning.
Hazrat Rafi 'ibn Khadij (may Allah be pleased with him) narrates: It was said, Messenger of Allah! Which profession is the purest? The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “Man's work with his own hands and every good business.” Narrated by Ahmad.
مشکاۃالمصابیح2783
On the servant of Allah, Masood said: The Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, said: رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شعاب الْإِمَانَ
Hazrat Abdullah bin Masood (may Allah be pleased with him) narrates that the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) said:
مشکاۃ المصابیح2781
Al Umm Salamah qalt: certainly spend Abu Ali aهd prophet Prophet businessman Ali al-Basri, Lim ymna Aba Bakr alzn barsola Allah peace be upon him shه Ali nsybه from alskus lltjarة, uzlك ear lإajabهm earned altjarة uhbهm lltjarة, ulm ymna prophet peace be upon him from alskus per tjartه lhbه shbtه uznه Bobby Aba Bakr Bakr, lacking the ear bshbtه majba, lasthsan -ufy reported: Messenger of Allah peace be upon him lasthbab- lltjarة, precious uإajabه
Umm Salma (may Allah be pleased with her) says that when Abu Bakr (may Allah be pleased with him) went to Basra for trade during the time of the Messenger of Allah (may peace be upon him), Abu Bakr (may Allah be pleased with him) had a special relationship with the Messenger of Allah (may peace be upon him) through trade. Don't stop working. Because Abu Bakr liked trade very much and neither did the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) stop Abu Bakr from trading because of his love, even though he liked to stay with Abu Bakr (may Allaah be pleased with him). The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) also liked to trade.
سصلۃ الصحیحہ
1267
Imam al-Ghazali (may God have mercy on him) while discussing Tawakkul in Ahyaa-ul-Uloom has written that it is not Tawakkul to keep an eye on the charities and donations of others by giving up the struggle for livelihood and trade and agriculture. Tawakkul means that According to the command, every effort should be made for earning a living, and whatever form of profit and loss occurs after the effort, he should be patient and thankful by believing in it from God Almighty. Imam al-Ghazali (may Allah have mercy on him) has written an incident of Hazrat Umar (may Allah be pleased with him) in this regard. Who are the people Someone replied, "We are the trustees, they are the ones who rely on Allah." Hazrat Umar (may Allah be pleased with him) said, "No, we are the culprits." No, these people are free eaters. This shows that in addition to doing religious work, preaching and invitation, as well as prayers and fasting, it is necessary for every Muslim to earn a living.
The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) forbade the Sahaabah from asking such questions and taught them that they refrained from asking for even trivial things. Islam did teach trust, but the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) corrected what people called trust.
May Allah Almighty grant us all the ability to work halal food by working hard and may Allah Almighty grant us halal food. Amen.
May Allah Almighty make the path of guidance easy for the entire Ummah. Amen
After reading the articles, share them with others
www.natiqukizaban.com
ایک تبصرہ شائع کریں