بسم اللہ الرحمن الرحیم
*22 رجب ۔۔وفات حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور کونڈے کی نیاز*
حضرت معاویہ جیسے ہوش مند انسان سے کیسے ممکن تھا کہ وہ اس اقتضاء حکومت کو نظر انداز کردیتے اور فتنہ کے استیصال میں غفلت برتتے، چنانچہ برسرِ اقتدار آتے ہی انھوں نے فتنہ وبغاوت کے سدباب کو ضروری سمجھا اور شرپسند عناصر کی سرکوبی کی ملک گیر مہم چلائی اور باغیوں (شیعوں) کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کرنا اور سزائیں دینا شروع کردیا جس سے بہت سے شیعہ قتل ہوکر اپنے کیفرکردار کو پہنچے اور کچھ لوگوں نے سزا کے خوف یا موت کے ڈرسے روپوشی اختیار کی۔ اور کتمان مذہب (تقیہ) کرکے جان بچانے میں عافیت سمجھی۔
ایک شیعہ موٴرخ اس وقت کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
”شیعان علی کے مال ومتاع ضبط کرلیے گئے، وہ قتل کیے گئے اور اس قدر ظلم ان پر کیے گئے کہ کوئی اپنے کو شیعہ نہ کہہ سکتا تھا۔“ (تاریخ اسلام ص ۳۳، ج:۱، از ذاکر حسین جعفری شیعہ)
مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوا کہ بہت سے شیعہ قتل ہوکر ٹھکانے لگ گئے اورجو کچھ باقی رہے وہ بھی اس قدر دہشت زدہ اور خائف تھے کہ خود شیعہ کہلوانا چھوڑدیا تھا۔اور اپنے انجام بد کے ڈرسے خانہ نشین ہوگئے۔
یہ لوگ بظاہر خاموش ہوگئے، مگر درحقیقت ان کے سینوں میں بغض معاویہ کی آگ بدستور بھڑک رہی تھی۔ اور وہ ان کے خلاف سانپ کی طرح پیچ وبل کھارہے تھے اور ان کی حکومت سے گلوخلاصی اور چھٹکارے کے شدت سے منتظر تھے۔
چنانچہ بیس سال انتہائی کامیاب حکومت کرنے کے بعد ۲۲/رجب ۶۰ھ کو ملت اسلامیہ کا یہ عظیم مدبر دنیا سے رخصت ہوگیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون.
حاسدین معاویہ کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کی بات اور کیاہوسکتی تھی کہ ان کا جانی دشمن دنیا میں نہیں رہا، اس لیے انھوں نے وفات معاویہ کی خبر سن کر خوب خوشیاں منائیں اور اظہار مسرت کے طور پر میٹھی ٹکیاں (کونڈوں کی پوریاں) بنائیں اور ایک دوسرے کو کھلاکر اپنے جذبہٴ عناد کو تسکین دی، اور یہ ساری کاروائی سنیوں سے چھپ کر اور پوشیدہ طریقہ سے انجام دی گئی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کاروائی مخفی کیوں رکھی گئی اور انھوں نے وفات معاویہ پر اپنی خوشی کا اظہار کھلم کھلا کیوں نہیں کیا؟ مولانا عبدالعلی صاحب فاروقی اس کی وجہ لکھتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ:
”کیوں کہ اس وقت اہل سنت وجماعت کا غلبہ تھا اور وہ صحابیٴ رسول کی توہین اور ان کی وفات پر اظہار مسرت کو برداشت نہیں کرسکتے تھے اس لیے رافضیوں نے چھپ چھپاکر اپنے اپنے گھروں میں ہی ٹکیاں بنالیں اور انہیں آپس میں تقسیم کرکے خفیہ طور پر اظہار مسرت کرکے دشمنیٴ اصحاب کا ثبوت فراہم کیا، بعد میں جب اس کا چرچا شروع ہوا تو نہایت ہی شاطرانہ انداز میں حضرت امام جعفر صادق کی طرف منسوب کردیا۔ (تعارف مذہب شیعہ ص ۱۵۸)
یہی وجہ ہے کہ اس رسم میں آج تک اس بات کی پابندی ہے کہ کونڈوں کی ٹکیاں کسی خفیہ جگہ پر پکائی جاتی ہیں۔ پھر بڑے اہتمام سے انھیں ڈھک کر رکھا جاتا ہے اور فاتحہ بھی کسی اندھیری جگہ پر دلائی جاتی ہے۔ اور پھر پردے کے ساتھ ہی انھیں کھایا کھلایا جاتا ہے۔
لیکن آگے چل کر جب اس سازش کی خبر سنیوں کو ہوئی اور اس راز سربستہ سے پردہ اٹھا تو شیعوں نے اپنا جرم چھپانے کے لیے اس کا رخ امام جعفر صادق کی فاتحہ کی جانب موڑ دیا۔
یہ ہے اس رسم کی اصل اور حقیقت۔ جس میں نادانستہ طورپر بعض ناخواندہ اہل سنت بھی شریک ہیں۔ اور اس رسم کو امرِ دین اور کارِ ثواب سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ اور یہ نہیں جانتے کہ یہ ”حب علی کے پردے میں بغض معاویہ“ کا مصداق ہے۔
In the name of God, Most Gracious, Most Merciful
* 22 Rajab - Death of Hazrat Amir Muawiyah and the need of Konde *
How could a sensible person like Hazrat Muawiyah ignore this requirement of the government and neglect the elimination of sedition, so when he came to power he considered it necessary to prevent sedition and rebellion and a nationwide campaign to suppress the evil elements. He started chasing and killing and punishing the rebels (Shias) and as a result many Shias were killed and reached their punishment and some people went into hiding for fear of punishment or death. And Katman considered it safe to save his life by practicing religion (Taqiyya).
A Shiite historian writes describing the situation at the time.
Ali's wealth and possessions were confiscated, he was killed and he was oppressed so much that no one could call himself a Shia. (History of Islam, p. 5, vol. 2, by Zakir Hussain Jafari Shia)
From the above narration it is known that many Shiites were killed and settled down and those who remained were so terrified and frightened that they stopped calling themselves Shiites and became homeless for fear of their fate.
These people seemed to be silent, but in reality the fire of hatred of Muawiyah was still burning in their chests. And they were biting against him like snakes and were anxiously awaiting deliverance and deliverance from his government.
Therefore, after a very successful reign of twenty years, this great mastermind of the Nation of Islam departed from the world on 2 / Rajab 5 AH. To Allah we belong and to Him we shall return.
What could be happier for the envious Muawiyah than that his mortal enemy was no more in the world, so he rejoiced when he heard the news of Muawiyah's death and as an expression of happiness Make and open each other to satisfy their stubbornness, and all this was done secretly and covertly from the Sunnis.
The question arises as to why this operation was kept secret and why he did not openly express his happiness over Muawiyah's death. Maulana Abdul Ali Sahib Farooqi writes that the reason for this is that:
"Because at that time the Ahl as-Sunnah wa'l-Jama'ah was dominant and they could not bear the insults of the Companions of the Prophet and the expression of happiness on his death, so the Rafidis secretly made tikis in their own homes and secretly distributed them among themselves. However, he expressed his happiness and provided proof of the enmity of the Companions. Later, when the discussion started, he attributed it to Hazrat Imam Jafar Sadiq in a very poetic manner. (Introduction to the Shia religion, p. 5)
That is why in this ritual it is still forbidden to bake condiments in a secret place. Then they are carefully covered and the Fatiha is placed in a dark place. And then they are fed with the curtain.
But later, when the news of this conspiracy reached the Sunnis and the secret was uncovered, the Shiites turned to Imam Jaffar Sadiq's Fatiha to cover up their crime.
This is the essence and reality of this ritual. In which some illiterate Sunnis are also unknowingly participating. And they perform this ritual as a matter of religion and reward. And they do not know that this is the case of "Muawiyah's hatred behind the veil of Hub Ali"
ایک تبصرہ شائع کریں